بہنوں کے اس ایثار کو یاد رکھنا بیٹا



امی...امی...ھماری تمام سہیلیوں کے بھائی ھیں...ھمارا کوئی بھائی کیوں نہیں ھے....,,
,,اللہ دے گا....,, 
,,کب دے گا امی....,,
,,جب اللہ کو منظور ھو گا...,, ان سب کی دعا قبول ھوئی.پاک اللہ کی رحمت کو جوش آیا.بہنوں کو بھائی مل گیا. بہنوں کے لئے بھائی سے زیادہ وہ ایک جیتا جاگتا,, گڈا،، تھا. جس کے ساتھ وہ دن بھر کھیلتیں. اس کے ناز اٹھاتیں.ماں سے زیادہ وہ اس کا خیال رکھتیں.
 وقت گزرتا رہا. اب بہن بھائی سکول جانے لگے تھے. اس دن موسم خراب تھا.بارش رکنے کا نام ھی نہیں لے رھی تھی. بچے سکول گئے ھوئے تھے. اور ماں فکر مند تھی.جب بچے گھر لوٹے.تو ماں حیران رہ گئی. بھائی کا لباس خشک تھا. بہنیں پانی میں شرابور نظر آ رھی تھیں. ماں کو کچھ پوچھنے کی ضرورت پیش نہیں آئی.
,,امی...امی...ایک چھاتہ تھا... بہنوں نے مجھے سائے میں رکھا...,,بھائی شوخ آواز میں بولا.
,,بہنوں کے اس ایثار کو یاد رکھنا بیٹا...,,امی سسک پڑی.بات گہری تھی. وہ سمجھ نہیں پایا.
 وقت گزر رہا تھا. بچے بڑے ھو چکے تھے. نئی,, صفیں,,بچھ چکیں تھیں.پُرانی,, صفیں,,لپیٹی جا چکیں تھیں. وہ تینوں اب خود گھر گرہستی والے تھے. ایک دن بھائی نے بہنوں سے کہا.
,,ابو کی جائیداد کا میں اکیلا وارث ھوں. تم دونوں کو اپنے حصے سے دست بردار ھونا پڑے گا...,, بہنوں کو چپ لگ گئی. مگر آنسو آنکھوں کی زبان ھوتے ھیں. انہوں نے اپنے آنسو بھائی سے چھپا لئے تھے. اب یہ قافلہ کچہری کی طرف چل پڑا. حلفی بیان قلم بند ھونے تھے.بھائی ،بہنوں سے ان کا حق چھیننے والا تھا. بہنوں کے لئے وہ اب بھی,, گڈے,,جیسا تھا. جس کے ناز وہ بچپن میں اٹھاتی رہیں تھیں.
 موسم بدل چکا تھا. سورج سر پر آگ برسا رہا تھا. تیز دھوپ برداشت سے باہر ھو رھی تھی. بھائی کی پیشانی پر پسینے کے قطرے چمکے.تو بہنوں نے اس کے سر پر اپنے آنچل کا سایہ کر دیا. اچانک جھماکا ھوا.بھائی کو برسات یاد آ گئی. بھائی چھاتے کے سائے میں تھا. اور بہنیں بارش میں بھیگ رہیں تھیں.
,,بہنوں کے اس ایثار کو یاد رکھنا بیٹا...,,ماں کی کہی بات آج اس کی سمجھ میں آئی تھی. اس کے وجود میں کالی گھٹا اٹھی.بصارت دھندلا گئی. وہ بہنوں کے قدموں پر گر پڑا.,, برسات,,تو اب شروع ھوئی تھی. یہ,, برسات,,ان تینوں کو بھگو رھی تھی.
Share on Google Plus

About

0 comments:

Post a Comment