دبئی بزنس گائیڈ


(حصہ.1)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ایک صاحب کہنے لگے کہ دبئی میں کاروبار کرنا بہت مشکل کام ہے۔ میں نے انہیں بتایا کہ شاید ہی دنیا کا کوئی اور ایسا ملک یا علاقہ ہو جہاں اتنی آسانی سے لوگ کاروبار کا آغاز کر سکتے ہوں، جتنی آسانی سے دبئی میں کر سکتے ہیں۔ پھر میں نے ان کو بتایا کہ کس طرح یہاں دیگر ملکوں کی بنسبت کاروبار کرنا آسان ہے۔
حقیقت تو یہ ہے کہ اس وقت دبئی دنیا کا جنکشن بن چکا ہے جہاں دنیا کے ہر کونے سے لوگ آ کر کاروبار کر رہے ہیں۔ اگر کسی کا کاروبار نقصان میں چل رہا ہے یا وہ اپنی پونجی گنوا چکا ہے تو یہ اس کی اپنی غلطیوں، ناقص منصوبہ بندی اور مینیجمنٹ کی وجہ سے ہوگا۔ ورنہ ہوشمندی سے کام کرنے والے کامیابی کے ساتھ اپنے کاروبار چلا رہے ہیں۔
کاروبار کے آغاز کے لیے قانونی مراحل اور دیگر تفصیلات کا ذکر تو بعد میں ہوگا پہلے میں آپ کو یہ بتا دوں کہ دبئی کاروبار کے لیے اور خاص کرکے ہم پاکستانیوں کے لیے کیوں نہایت مناسب جگہ ہے۔

نمبر1:
امن و امان: یہاں کا امن و امان مثالی ہے۔ اسٹریٹ کرائم نہ ہونے کے برابر ہے اور اگر کہیں سال بھر میں اکا دکا واردات ہو جائے تو اکثر مجرم پکڑے جاتے ہیں۔ کوئی آپ سے آپ کے آفس یا دوکان پر آ کر چندہ یا بھتہ نہیں مانگ سکتا۔ ہر جگہ خفیہ کیمرے لگے ہوئے ہییں۔ مجرم کہیں چھپ نہیں سکتا۔ ایک عورت بھی رات کے دو تین بجے بغیر کسی خوف کے تنہا پیدل چل سکتی ہے یا سفر کر سکتی ہے۔ کوئی گاڑی اس کا پیچھا نہیں کرے گی۔ آپ کئی کئی دن کے لیے اپنی فیملی کو اکیلا چھوڑ کر چلے جائیں، آپ کو کوئی پریشانی یا خوف نہیں ہوگا۔ اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ یہ کوئی انسانوں سے ماورا سوسائٹی ہے بلکہ کہنے کا مقصد یہ ہے کہ یہاں کرائم ریٹ انتہائی کم ہے۔ پولیس کی گاڑیاں اتنی بڑی تعداد میں دن رات پیٹرولنگ کرتی ہیں کہ آپ کو ہر دو تین منٹ بعد کوئی نہ کوئی پولیس کی گاڑی کہیں سے گزرتی ہوئی نظر آئے گی جس میں ہر طرح کی سہولیات ہوتی ہیں۔ وہ کسی بھی شخص کا شناختی کارڈ مانگ کر اس سے متعلق تمام معلومات لے سکتے ہیں۔ مگر ایسا نہیں ہے کہ وہ لوگوں سے قدم قدم پر کارڈ مانگتے ہوں بلکہ جس پر کچھ شک ہو جائے یا رات کے وقت میں کوئی تنہا کہیں مشکوک حالت میں پایا جائے تو اس سے وہیں پر تفتیش کر لیتے ہیں۔ یہاں کی پولیس انتہائی مہذب اور انسان دوست ہے۔ جس سے صرف مجرم ہی ڈرتے ہیں ایک شریف انسان کو ان سے بات چیت کرنے میں کسی قسم کا خوف نہیں ہوتا۔ دو آدمی اگر راہ چلتے ہوئے کسی بات پر آپس میں الجھ جائیں تو وہیں پر ان میں سے جو خود کو مظلوم سمجھتا ہے، اپنی موبائل سے 999 ڈائل کرتا ہے اور چند منٹوں میں پولیس آ جاتی ہے۔ جو کہ اکثر وہیں پر فیصلہ کر دیتی ہے۔ جسے تنبیہ کرنی ہوتی ہے تنبیہ کر دیتی ہے۔ جسے ساتھ لے جانا ہو ساتھ لے جاتی ہے۔

نمبر2: ٹیکس فری
یہاں اب تک کسی قسم کا ٹیکس نہیں ہے۔ کوئی ٹیکس آفیسر آپ سے آ کر نہیں پوچھے گا کہ آپ نے کتنے لاکھ کمائے، لاؤ گورنمنٹ کا حصہ دو۔ نہ ہی کوئی راشی آفسر آپ کو آ کر بلیک میل کرے گا۔ آپ لاکھوں کروڑوں کما رہے ہیں یا آپ اپنی لٹیا ڈبو رہے ہیں، حکومت کو اس سے کوئی سروکار نہیں ہے۔ حکومت کو بس یہ چاہیے کہ آپ یہاں کوئی غیر قانونی کام نہ کریں، یہاں کے رولز کو فالو کریں اور امن سے رہیں۔
میرا ایک انگریز جاننے والا تھا جس کا نام پیٹر تھا۔ ہالینڈ سے تعلق رکھتا تھا۔ وہ دبئی میں کافی عرصہ سے کاروبار کر رہا تھا۔ میں بھی اس کی کمپنی سے سامان خریدا کرتا تھا۔ ایک دن میں نے اس سے پوچھا کہ آپ کا یورپ تو کافی ایڈوانس ہے اور کاروبار بھی بہت اچھے ہیں تو وہاں اپنے ملک میں کیوں کاروبار نہیں کرتے۔ اس نے جواب دیا کہ بھائی وہاں اتنے ٹیکس ہیں کہ مجھے کچھ نہیں بچے گا جب کہ میں نے حساب لگایا ہے کہ یہاں سارے خرچے نکال کر میں اپنی آمدن کا 80-85% بچا لیتا ہوں۔ جب کہ ہالینڈ میں مجھے تقریبا 45% ٹیکس دینا پڑے گا۔
اب سننے میں آ رہا ہے کہ VAT کے نام سے چار تا پانچ فیصد تک کا ایک ٹیکس دبئی حکومت کی طرف سے آ رہا ہے۔ مگر ابھی تک آیا نہیں ہے۔ (Value added Tax)
جاری....
Share on Google Plus

About

0 comments:

Post a Comment