سلیمانی سندھی ٹوپی



جس ملک کے تمام تر صوبے لسانی بنیادوں پر کھڑے ہوں، جس ملک میں کئی بار چھوٹے بڑے لسانی فسادات بھڑک چکے ہوں، جس ملک میں آئے روز، کبھی پنجابی پٹھان، کبھی پٹھان بلوچ، کبھی سندھی مہاجر، کبھی پنجابی سرائکی تو کبھی پٹھان ہزارے وال ایک دوسرے کے خلاف مورچہ زن ہو جاتے ہوں، وہاں ملک کی ایک بڑی سیاسی پارٹی کی جانب سے صرف ایک صوبہ میں ثقافت ڈے کے نام پر اتنے اہتمام کے ساتھ پروگرامات منعقد کرنا سمجھ سے بالاتر ہے۔ یہ چیز جس اہتمام سے اب ہر سال کی جانے لگی ہے اس سے تو اندازہ ہوتا ہے کہ اس کے پیچھے کوئی مخصوص ایجنڈا ہے جس کی تکمیل مطلوب ہے۔ میں خود اسی صوبہ سے تعلق رکھنے کے باوجود درج ذیل وجوہات کی بنیاد پر پیپلزپارٹی کی اس پالیسی کی نفی کرتا ہوں

۱۔ پیپلز پارٹی، ملکی سطح کی ایک جماعت کی حیثیت سے جانی جاتی ہے۔ پھر کیوں ثقافت کی یہ دیگ اس نے صرف صوبہ سندھ ہی میں اتاری ہے۔ کیا پنجاب، بلوچستان اور کے پی کے والوں کا یہ حق نہیں ہے کہ ان کے صوبوں میں بھی اسی طرح ثقافتی ڈے منائے جاتے؟ کیا یہ بات اس چیز کی غماز نہیں کہ اب پی پی سکڑ کر سندھ تک ہی محدود ہو چکی ہے اور صوبائیت اور لسانیت کو اپنا آخری مورچہ بنانے کی تیاری کر رہی ہے تاکہ بوقت ضرورت اس میں پناہ لی جا سکے۔ اب کوئی یہ نہ کہے کہ پی پی کی حکومت چوں کہ صرف سندھ میں ہے اس لیے وہ یہ سب کچھ اپنے صوبے میں کر رہی ہے۔ اگر دیگر صوبوں میں حکومت نہیں ہے تو پارٹی اور لیڈرز تو موجود ہیں۔ پھر کیا یہ سمجھا جائے کہ اس ڈرامہ بازی کا مقصد صرف اپنی صوبائی حکومت سے بھاری فنڈز نکلوانا اور پھر اس میں سے اپنا حصہ کھرا کرنا ہے۔

۲۔ سندھ کے عوام، خاص طور پر دیہات میں رہنے والے لوگ کئی عشروں سے پی پی کو ووٹ دیتے چلے آ رہے ہیں اور سندھ میں زیادہ تر حکومت کرنے کا موقعہ بھی اسی پارٹی کو کو ملا ہے۔ مگر اس کے باوجود سندھ کے عوام کے دن تبدیل نہیں ہوئے اور آج بھی لوگ گویا ستر یا اسی کی دہائی میں رہ رہے ہیں۔ آج بھی دیہی سندھ کے لوگ اسی طرح بے روزگاری، غربت، لاقانونیت، کرپشن، اقرباپروری، وی آئی پی کلچر، ویڈیرہ شاہی اور جہالت کی زندگی گزار رہے ہیں۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ پی پی اپنے ووٹرز اور عام آدمی کو ثقافت کا لولی پاپ دینے کے بجائے وہ اصل کام کرتی جو اسے کرنے چاہیے تھے مگر نہیں لگتا کہ اس کی حکومت، پارٹی قیادت اور وزراء اپنی روش بدلنے کا کوئی ارادہ رکھتے ہیں۔

۳۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ثقافت ڈے کے عنوان سے کروڑھا روپے مختلف پروگرامات اور تشہیری مہم کی صورت میں خرچ کیے جاتے ہیں۔ میرے پاس ایسا کوئی ذریعہ نہیں ہے کہ جان سکوں کہ اس مہم کے لیے کتنا بجٹ رکھا گیا ہے مگر ایک بات تو طے ہے کہ خرچ ہونے والی رقم اربوں میں نہیں تو کروڑوں میں ضرور ہے۔ کیا یہ بہتر نہ تھا کہ یہی رقم تھر کے غریب لوگوں کے حالات بہتر کرنے پر خرچ کی جاتی، صوبہ کی ٹوٹی پھوٹی سڑکوں کو بہتر بنانے اور دیگر ترقیاتی کاموں پر لگائی جاتی؟ اور کچھ نہیں تو کم از کم اس رقم سے سندھ کے کسی دور دراز علاقہ میں ایک اچھا اسپتال تو بنایا ہی جا سکتا تھا۔
۴۔ سندھی ثقافت ڈے کے نام سے یہ مہم جناب آصف علی زرداری صاحب ہی کے ذوق کی تسکین کی خاطر شروع کی گئی تھی۔ اگر جناب آصف علی زرداری صاحب کو اپنی ثقافت سے اتنی ہی محبت ہے اور ٹوپی کرنے اور کرانے کے بغیر وہ نہیں رہ سکتے تو پھر ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ جب وہ ملک کے صدر تھے اور غیر ملکی دوروں پر جاتے تھے تو اجرک اور سندھی ٹوپی پہن کر باہر جاتے یا پھر آج جب وہ دبئی میں رہتے ہیں تو وہاں شلوارقمیص، اجرک اور سندھی ٹوپی ہی میں ہمیں کسی مسجد، کسی شاپنگ سینٹر یا میٹرو میں نظر آ جاتے، مگر لگتا ہے کہ یہاں انہوں نے کوئی ایسی سلیمانی سندھی ٹوپی اوڑھ رکھی ہے کہ کبھی کسی عوامی جگہ پر نظر ہی نہیں آتے۔

۵۔ محبت زندہ انسانوں سے کی جاتی ہے اور مخلص اور سچا لیڈر وہی ہے جو اپنے لوگوں کے درمیان رہتا ہے۔ ان کے دکھ درد میں شریک رہتا ہے۔ جو دوسروں پر بیت رہی ہے خود بھی جھیلتا ہے۔ اسے محبت کی زبان بولتے ہیں۔ اس کا کوئی دوسرا نام نہیں ہے۔ یہ زبان جانور بھی سمجھتے ہیں۔ بھوکا شیخص یہ نہیں دیکھتا کہ اسے کھانا کھلانے والے نے پینٹ پہن رکھی ہے یا پاجامہ۔ مظلوم یہ نہیں دیکھتا کہ اس کی مدد کرنے والے نے جناح کیپ اوڑھی ہوئی ہے یا سندھی ٹوپی۔ اسی طرح یتیم اور بے سہارا یہ نہیں دیکھتا کہ اس کے سر پہ جس شخص نے ہاتھ رکھتا ہے وہ سندھی بولتا ہے یا سرائکی۔ انسانوں کو کام چاہیے۔ زبان، لباس اور ثقافت ثانوی حیثیت رکھتے ہیں۔ اصل شرف انسانیت کو حاصل ہے۔ مگر یہاں کیفیت یہ ہے کہ اج حکومت ختم، کل باہر جانے کے لیے سوٹ کیس تیار۔ کیا سندھ کے عوام صرف اسی لیے زندہ ہیں کہ وہ اپنے جیے بھٹو کے نعروں سے مرحوم بھٹو کے نام کا خراج ہمیشہ ان کو دیتے رہیں جو صرف ان کے اوپر حکمرانی کرنے کے لیے پیدا ہوئے ہیں، ادھر حکمرانی ختم، ادھر سلیمانی سندھی ٹوپی سر پر۔ یہ جا اور وہ جا۔
Share on Google Plus

About

0 comments:

Post a Comment